سمیع چوہدری کا کالم: اور بین سٹوکس نے میلہ لوٹ لیا۔۔۔

سمیع چوہدری کا کالم: اور بین سٹوکس نے میلہ لوٹ لیا۔۔۔

ٹیسٹ کرکٹ بھی کیا عجیب تجربہ ہے۔ کبھی پلڑا ایک طرف جھکتا ہے تو کبھی دوسری طرف۔ دھڑکنیں رک جاتی ہیں، وقت تھم جاتا ہے اور زندگی گویا اونگھنے لگتی ہے مگر اچانک کہانی یوں پلٹتی ہے کہ آدمی دم بخود رہ جاتا ہے۔

روٹ کی ٹیم کیپ ٹاؤن میں اتری تو بہت شکست خوردہ تھی، انجریز، بیماریوں اور فٹنس کے مسائل میں گھری تھی۔ انگلش کیمپ پہ بے یقینی کے بادل منڈلا رہے تھے۔

دوسری جانب ڈوپلیسی کی ٹیم نئے سیٹ اپ سے ہم آہنگ ہو کر پچھلے ہفتے کی جیت کا حظ اٹھا رہی تھی اور کیپ ٹاؤن میں جیت کے لیے مثبت توقعات باندھے تھی۔

بحرانوں میں گِھری ٹیموں کے پاس دلدل سے نکلنے کا ایک ہی رستہ ہوتا ہے کہ کوئی ایک دو پلئیرز اٹھ کھڑے ہوں اور ایسی دھماکے دار انفرادی پرفارمنس دے ڈالیں کہ مخالف ٹیم کے طوطے اڑ جائیں اور جب تک ہوش سنبھلیں، تب تک کہانی بہت آگے نکل چکی ہو۔

یہی کچھ اس میچ میں جیمز اینڈرسن نے کیا۔ جب قریب تھا کہ جنوبی افریقہ پہلی اننگز میں برابری کا دعویٰ کر پاتا، اچانک اینڈرسن کی فارم عود کر آئی اور تیسری صبح کے سپیل میں ایسی شاندار بولنگ کی کہ پانسہ ہی پلٹ دیا۔

فاسٹ بولرز جب طویل انجریز کے بعد میدان میں اترتے ہیں تو سبھی نگاہیں ان پہ مرکوز ہوتی ہیں۔ ٹیم بھی ان ہی سے آس لگائے بیٹھی ہوتی ہے اور شائقین کی امیدوں کا محور بھی وہی ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایشز سیریز: ‘بین سٹوکس سے جینا سیکھیے’

انگلینڈ کو شکست، روٹ کی کپتانی پر سوالیہ نشان

’دوسرے بولرز وکٹ لے سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں‘
ایسے میں کامیابی کی خواہش حد سے بڑھ جاتی ہے اور توقعات کا بوجھ کبھی اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ بولر ضرورت سے زیادہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اس شدید کوشش میں، ظاہر ہے، غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔

اینڈرسن نے بھی کچھ ایسی ہی غلطیاں پچھلے میچ میں کی اور ٹیم ان کی موجودگی کے باوجود اپنی قسمت بدل نہ پائی مگر کیپ ٹاؤن میں اینڈرسن نے کہیں غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑی۔

یہ اینڈرسن کے اس پہلی اننگز کے سپیل کا کمال تھا کہ ڈوم سبلی نے اس اعتماد کو اپنی قوت بنا کر انگلش برتری کو واضح تر کر دیا۔ انگلش ٹیم نئے طرز کی کرکٹ کھیلنے پہ مصر ہے مگر سبلی نے خالص اولڈ سکول گیم کھیل کر ایسا پلیٹ فارم دیا جس پہ بعد میں سٹوکس نے ٹی ٹونٹی ٹائپ اننگز کھیلی اور میچ کو مزید دلچسپ بنا دیا۔

مگر یہ دلچسپی صرف شائقین اور انگلش کیمپ تک ہی محدود رہی کیونکہ ڈوپلیسی اور ان کے بولرز کے لیے کھیل کا وہ مرحلہ ہرگز دلچسپ نہ تھا۔

شاید تبھی ڈوپلیسی پہ اتنا پریشر بڑھ گیا کہ ان کی ساری بیٹنگ لائن دباؤ میں آ گئی تا آنکہ جب روٹ نے اننگز ڈکلئیر کی، تب تک جیت جنوبی افریقہ کے وہم و گماں سے بھی پرے جا چکی تھی۔ ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح میچ بچایا جائے۔
جنوبی افریقہ نے کوشش بھی پوری کی۔ پیٹر ملان بھی تن کر کھڑے ہوئے اور خوبصورت مدافعانہ اننگز کھیلی۔ درحقیقت جنوبی افریقہ یہ میچ بچانے کے لیے اس قدر کوشاں تھا کہ ڈی کوک نے بھی اپنی جارحیت کے سبھی گئیرز ریورس کر دئیے۔

اور تو اور، وانڈر ڈسن نے ہی جیفری بائیکاٹ کی یاد دلا دی۔ صرف سترہ رنز کے لیے وہ 194 منٹ تک کریز پر موجود رہے مگر آخری گھنٹے کا شروع ہونا تھا کہ جنوبی افریقہ کے اعصاب شل ہونے لگے اور موقع پاتے ہی بین سٹوکس نے میلہ لوٹ لیا۔

انگلینڈ کے لیے یہ جیت بہت یادگار رہے گی۔ محض اس لیے نہیں کہ یہ جیت ان کے لیے بہت ضروری تھی بلکہ اس لیے بھی کہ یہ میچ پورا دن کسی نتیجے کی طرف جاتا دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ یقینی ڈرا کو فتح میں بدلنے کا لطف تو پھر کچھ اور ہی ہے۔