اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب قانون کی تین دفعات کو ’غیر اسلامی‘ کیوں قرار دے دیا؟

اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب قانون کی تین دفعات کو ’غیر اسلامی‘ کیوں قرار دے دیا؟

پاکستان کی اسلامی نطریاتی کونسل نے نیب کے قانون کی تین دفعات کو ’اسلامی اصول اور قوانین کے برعکس‘ قرار دے دیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب قانون کی جن دفعات کو غیر قانونی قرار دیا ہے ان میں دفعہ 14 ڈی، 15 اے اور 26 شامل ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے بتایا کہ نیب قانون کی تین دفعات شرعی قوانین کی پیروی نہیں کرتیں بلکہ اسلامی اصول اور قوانین کے بالکل برعکس ہیں۔

مزید پڑھیے

’نیب واحد ادارہ ہے جس کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں‘

’نیب کا کام کرپشن کی روک تھام ہے اداروں کی اصلاح کرنا نہیں‘

’نیب اب ٹیکس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا‘

قبلہ ایاز کے مطابق اسلامی نطریاتی کونسل کے جسٹس رضا خان کی قیادت میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران نیب قانون کی دفعات کی ہر شق پر غور کیا گیا۔

یہ دفعات ہیں کیا اور ان پر کیا اعتراضات ہیں؟

1.دفعہ نمبر 14 ڈی
نیب قانون کی دفعہ نمبر 14 ڈی کے تحت کسی بھی ملزم پر کسی بھی قسم کی رشوت خوری کا الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی اسے مجرم گمان کیا جائے گا اور انکوائری کے مکمل ہونے تک قید میں رکھا جائے گا۔

اِس بارے میں قبلہ ایاز نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے کسی پروفیسر کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

اس ساری بے عزتی کی کیا ضرورت ہے؟ اسلامی قوانین کے تحت جب تک کسی پر الزام ثابت نہیں ہو جاتا تب تک اُن کو عزت دی جائے گی اور بے گناہ تصور کیا جائے گا .

یاد رہے کہ 8 جنوری کو سپریم کورٹ نے ایک سماعت کے دوران نیب کی ملزم کو پہلے قید کرنے اور بعد میں انکوائری کرنے کے عمل پر سوال اٹھایا تھا۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا تھا کہ ’نیب ایسا کیوں نہیں کرتی کہ پہلے ثبوت اکٹھا کرے اور اس کے ملنے اور ثابت ہونے کے بعد ملزم کو اپنی تحویل میں لے؟‘

2.دفعہ نمبر 15 اے
نیب قانون کی دفعہ 15 اے کے تحت الزام لگنے کی صورت میں ملزم کو اپنی بےگناہی کا ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے۔

اس پر قبلہ ایاز نے کہا کہ ’یہ تو الزام لگانے والا بتائے کہ اُس کے پاس کیا ثبوت ہے کہ کوئی ملزم کیوں ہے؟ جس کے بعد ملزم یہ ثابت کر سکے کہ آیا اُس نے کوئی جرم کیا بھی ہے یا نہیں۔‘

3.دفعہ نمبر 26
نیب قانون کی دفعہ 26 کے تحت اگر کوئی ملزم اپنے اوپر لگے الزامات قبول کر کے ریاست کے لیے گواہ بننا چاہے تو اس پر لگے الزامات ختم کر دیے جائیں گے۔

اس دفعہ کے حوالے سے قبلہ ایاز سوال اٹھاتے ہیں کہ ’یعنی اگر کوئی ملزم گناہ ثابت ہونے کے بعد یہ وعدہ کر لے کہ وہ قصور وار ہے اور آپ کی مدد کرے تو آپ اُس کے سارے گناہ معاف کر دیں گے یا پھر اُس کے حصّے کی جو سزا ہے اسے وہ دیں گے؟‘

فواد چوہدری کا جواب

قبلہ ایاز اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ان اعتراضات کا جواب وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے۔
انھوں نے کہا کہ ’آج تک مذہبی طبقات کی سوچ کو نظریاتی کونسل سے کوئی رہنمائی نہیں ملی۔ ایسے ادارے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا جواز میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ادارے کی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، انتہائی جید لوگ اس ادارے کو سنبھالیں