زندہ قومیں سستی و کاہلی کو ترک کرکے جدوجہد و محنت کا راستہ اختیار کرتی ہیں : لارڈ میر برمنگھم چوہدری محمد افضل

اسلام آباد ( راجہ بشیر عثمانی ) لارڈ میر برمنگھم چوہدری محمد افضل نے کہا ہے کہ اپنے مشن سے لگن اور مسلسل جدوجہد انسان کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیتی ہے قانون کی حکمرانی انصاف و عدل ملک و قوم کو ترقی کی طرف گامزن کرتے ہیں برطانیہ میں مقیم کشمیری و پاکستانی کیمونٹی نے اپنی محنت و کاوش سے برطانیہ میں ممتاز مقام حاصل کیا ہے زندہ قومیں سستی و کاہلی کو ترک کرکے جدوجہد و محنت کا راستہ اختیار کرتی ہیں برطانیہ نے اوورسیز کو عزت و احترام دیا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کشمیر کے دور افتادہ مقام سے جانے والوں کو لارڈ میر کے منصب پر فائز کیا ہے جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز روزنامہ کشمیر پوسٹ کے دورے کے موقع پر اپنے خصوصی انٹرویو میں کیا لارڈ میر چوہدری محمد افضل نے کہا کہ لوگ سستی و کاہلی کی وجہ سے ترقی نہیں کرتے برطانیہ کی ترقی کی بنیادی وجہ لوگوں کی محنت و جدوجہد ہے برمنگھم لندن کے بعد برطانیہ کا سب سے بڑا شہر ہے ہم نے مثالی ترقی کے کام کرکے برمنگھم کو ایک خوبصورت سٹی بنا دیا ہے انہوں نے کہا کہ چودہ سال کی عمر سے کام کا آغاز کیا تھا اس وقت سے لے کر آج تک کبھی سستی روی کو اپنے قریب آنے نہیں دیا دن رات عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہے برطانیہ دیانتداری قانون کی حکمرانی وپاسداری محنت و جدوجہد کے راستے پر گامزن ہے قانون کی حکمرانی بنیادی اور اولین چیز ہے سرخ بتی پر سب رک جاتے ہیں اور کسی کو قانون توڑنے کی جرات نہیں ہوتی انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں راہج نظام بہت اعلی اور زبردست ہے کرونا کے موقع پر چھ افراد سے زاہد جنازہ بھی نہیں پڑھ سکتے تھے نہ ہی کسی جگہ جمع ہوسکتے تھے کرونا کے دوران برطانوی وزیر اعظم نے ایک پارٹی رکھ لی جس میں زیادہ لوگ شریک ہوگے وزیر اعظم کے خلاف آج تک کیس چل رہا ہے اور لوگ بھی احتجاج کررہے ہیں برطانیہ کا نظام مضبوط ہے وہاں تھوڑی سی بھی گڑھ بڑھ کریں گے آپ پکڑے جاہیں گے لارڈ میر نے کہا کہ وہاں کا نظام تعلیم مثالی ہے وہاں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق لوگ تیار کیے جارہے ہیں جبکہ یہاں ہماری یونیورسٹیاں اس طرز کے افراد تیار نہیں کررہی ہیں جس کی موجودہ دور میں ضرورت ہے یہاں نقل کا رجعان ہے جبکہ برطانیہ میں نقل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاانہوں نے کہا کہ برطانیہ میں قانون کی حکمرانی اور انصاف ہوتا ہوا نظر آتا ہے جب عملی طور پر قانون و انصاف کی حکمرانی نہ ہو اس ملک اور معاشرے سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ قانون و انصاف کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں و کشمیریوں کی دلچسپیاں پاکستان سے ختم ہوتی جارہی ہیں اور بداعتمادی کی فضا پروان چڑھ رہی ہیچوہدری افضل نے کہا ہے کہ قانون و انصاف کی حکمرانی سے عوام کے مسائل ہوئے ہیں برطانیہ میں مقیم آزاد کشمیر و پاکستان کے باشندے اپنی محنت و جدوجہد سے ترقی کی منازل طے کررہے ہیںاور اپنے ملک کانام روشن کیا ہے محنت و جدو جہد کے بغیر کوئی بھی انسان ترقی و کامیابی حاصل کرسکتا ہے لارڈ میئر برمنگھم چوہدری محمد افضل نے کہا کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو محنت کو اپنا شعار بناتی ہیں سویٹ ہوم میں آکر یہاں کا ماحول مثالی ہے بچوں نے جس خوبصورت انداز میں اپنا تعارف پیش کیا اور اپنی تعلیمی کامیابیوں کا تذکرہ کیا ہے وہ ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے۔.
لارڈ میئر نے اپنے بچپن کے حالات، مشکلات اور ابتدائی تعلیم کے حوالے سے تفصیلی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے گنگال گائوں میں پرائمری تعلیم حاصل کی اور پھر مڈل کی تعلیم پیڑا گو گائوں میں حاصل کرنے کے بعد میٹرک کا امتحان قلعہ رتہ سے پاس کیا ،میٹرک فرسٹ ڈویڑن میں کی والدین نے فیصلہ کیا کہ مزید تعلیم کے لیے دینہ شفٹ ہوجائیں میرا گائوں ٹیلہ جوگوں کے قریب واقع ہے میں نے ایف ایس سی سے دینہ سے کی اور پھر 1969میں برطانیہ چلا گیا، 1970میں لیبر پارٹی جوائن کی 1981میں لیبر پارٹی نے کونسلر کے لیے امیدوار نامزد کردیا ، لیکن میں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، 1982ہی میں ممبر کونسلر کے لیے امیدوار نامزد کیا اور 1982ئ میں پہلی مرتہ مسلم کونسلر بنا ،وہاں ایشین کی آبادی صرف 9فیصد تھی جب میں لوگوں سے ووٹ مانگتا تو لوگ کہتے کہ بھائی تم کس لیے ووٹ مانگ رہے ہو تم کیا کروگے ہمارے ووٹ ویسے ہی ضائع کرو گے میں لوگوں کی یہ باتیں سن کر پریشان بھی ہوتا تھا اور سوچتا تھا کہ میں شائد کونسلر نہ بن سکوں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 1982ئ میں کونسلر بن گیا میں پہلا مسلم کونسلر تھا۔120کے ایوان میں ایک الگ رنگ کا آدمی بیٹھ جائے تو لوگ اسے حیرت سے دیکھتے ہیں اس لیے کہ میری الگ رنگت تھی اور بعض ہائوس کے ممبران نے میرے قریب آکر مجھ سے پوچھا کہ آپ یہاں کیونکہ بیٹھے ہیں تو میں نے انہیں بتایا کہ میں کونسلر ہوں۔اس پر وہ مزید حیرت زدہ ہوگئے میں 1992میں برمنگھم کونسل کا چیئرمین بنا اور تقریبا 13سال چیئرمین رہا ،ہائوس آف کامنز کا کام قانون سازی کرنا ہے ،سڑکوں کی صفائی ،تعمیرات کا کام لوکل کونسل کرتی ہے۔برمنگھم کونسل سب سے بڑی کونسل ہے 1992ئ میں برمنگھم کونسل کا چیئرمین رہا
، انہوں نے کہا کہ میں 1982سے لیکر 2004 فرنٹ بنچ پر رہا، انہوں نے کہا کہ جب برطانیہ میں بڑے ممالک کا اجلاس منعقد ہوا وہ استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین اسی دوران 12مئی کے دھماکے ہوئے تھے امریکہ کے اس وقت کے صدر بل کلنٹن سے ملاقات ہوئی اور بل کلنٹن نے تعارف پوچھا تو میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں میں نے گفتگو ہی مسئلہ کشمیر کا تذکرہ کیا یہ 1988کی بات ہے بل کلنٹن نے کہا کہ کشمیری ہمارے بھائی ہی تنازعہ کشمیر حل کرنے میں اپنی کوشش کرینگے
انہوں نے کہا کہ میں اپنے حلقہ میں پرائمری سکول کا40سال تک چیئرمین رہا ،لوگوں نے میری ان خدمات پر سکول کی عمارت میرے نام سے منسوب کردی ہے ،میری زندگی میں ہی سکول کی عمارت کو میرے نام سے منسوب کرنا میری خدمات کا واضع اظہار ہے ،انہوں نے کہا کہ 2016میں میں نے لارڈ میئر بننا تھا لیکن میں نے بعض وجوہات کی وجہ سے نہ بن سکا، 2020میں لارڈ میئر بننا تھا پھر کورونا آگیا اب 2021میں لارڈ میئر بنا ہوں
انہوں نے کہا کہ محنت اور کوشش سے انسان مشکل ٹارگٹ کو حاصل کرلیتا ہیاس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوے جموں وکشمیر سالویشن موومنٹ کے صدر ممتاز کشمیر ی راہنما الطاف احمد بٹ نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی و کشمیریوں کی اپنے ملک کے لیے گرانقدر خدمات ہیں بیرون ممالک میں مقیم کشمیری و پاکستانی کشمیر و پاکستان کے حقیقی سفیر کا کردار ادا کررہے ہیں بدقسمتی کی بات ہے کہ جب کبھی اوورسیز کشمیری و پاکستانی اپنے وطن لوٹتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور ایئرپورٹ سے لے کر اپنے گھروں میں پہنچنے تک وہ بہت مشکلات سے گزرتے ہیں قدم قدم پر انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اوورسیز کے لیے ایک اوورسیز کلب قاہم کیا جاے حکومت ان کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بناے اور اوورسیز کو درپیش جتنی مشکلات ہیں وہ ختم کی جاہیں اوورسیز کو یہاں ایسا مثالی ماحول اور سہولیات مہیا کی جاہیں تاکہ وہ خوشی خوشی یہاں قیام کرسکیں اور ان کے بچے بھی خوش رہ سکیں حکومت کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اوورسیز کا خیال رکھے اور ان کے لیے راحت و سکون کا ماحول مہیا کریالطاف احمد بٹ نے کہا کہ اوورسیز کشمیری و پاکستانی نیو جنریشن کی اپنے ملک کے ساتھ وابستگی کو مضبوط بنانے کیلیے حکومت پاکستان کو متعدد اقدامات اٹھانے چاہیے جس سے نیو جنریشن کا اپنے ملک پر اعتماد بڑھے ان کی اپنے ملک کے ساتھ لگن میں اضافہ ہو جس کے حوالے سے میری ایک تجویز ہے کہ ایئرپورٹ کے قریب یا اسلام آباد میں کسی بھی جگہ اوورسیز کلب بنایا جاے جہاں ہر قسم کی سہولیات موجود ہوں اور پاکستان کی کلچر کا واضح اظہار بھی ہو اوورسیز جب پاکستان آہیں تو وہ یہاں قیام کرسکیں اس طرح کے دوسرے اقدامات بھی اٹھاے جاسکتے ہیں