مسلم لڑکیوں کا آنچل بنا پرچم، کیا ہیں اس کے معنی؟

’ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن، تو اس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا‘

برسوں پہلے لکھنؤ کے معروف رومانی شاعر اسرارالحق مجاز نے ’نوجوان خاتون سے۔۔۔‘ کے عنوان سے یہ نظم اداکارہ نرگس دت سے ملاقات کے بعد لکھی تھی۔ اس وقت انھوں نے شاید ہی سوچا ہو گا کہ یہ آنے والے وقت کی ایک للکار ثابت ہو گی۔

مجاز نے جس علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی وہ آج مزاحمت کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

دراصل یہاں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے اور اس کی قیادت سکارف باندھے خواتین کر رہی ہیں۔

اس قانون میں تین پڑوسی ممالک سے انڈیا آنے والی چھ برادریوں کو شہریت دینے کی بات کی کئی گئی ہے مگر اس میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔
جاز کے اشعار کو اب ان مظاہروں میں شریک لڑکیاں گا رہی ہیں اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ وارننگ، فائرنگ، آنسو گیس اور مقدموں کے اندراج کے باوجود بھی ان خواتین کا احتجاج جاری ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، خواتین کے احتجاج کے گڑھ ثابت ہو رہے ہیں جہاں وہ پولیس کی سختی کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہیں۔

انڈیا کی تاریخ میں مسلم خواتین پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلی ہیں۔ وہ احتجاج کی قیادت بھی کر رہی ہیں اور مزاحمت کے ذریعے اپنی نئی شناخت بھی بنا رہی ہیں۔
دلی کے کم آمدنی والے علاقے شاہین باغ کی خواتین احتجاج کا نیا چہرہ بن کر سامنے آئی ہیں۔

دلی کی شدید سردی میں بھی یہ خواتین کئی ہفتوں سے دن رات پر امن احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہریت کا نیا قانون انڈیا کے آئین کے خلاف ہے۔

خراب موسم اور پولیس کی طرف سے سخت کارروائی کے باوجود ان خواتین نے احتجاج کی مشعلیں اٹھائی ہوئی ہیں۔ اپنے حجاب اور برقعے میں وہ ایک ایسے نظام کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں جس میں انھیں ایک مخصوص پہچان دی جاتی ہے۔

یہ سب اس رات شروع ہوا جب جامعہ ملیہ اسلامیہ پر حملہ ہوا اور شاہین باغ کی دس خواتین اپنے اپنے گھروں سے نکل کر احتجاج کے لیے بیٹھ گئیں تھیں۔

اسی رات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عبد اللہ ہاسٹل میں طالبات نے تین تالے توڑ دیے جہاں انھیں بند رکھا گیا تھا۔ جب انھیں گرلز ہاسٹل سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی تو وہ وہیں دھرنے پر بیٹھ گئی تھیں۔ انھوں نے پولیس پر شدید تشدد کا الزام لگایا ہے۔

س کے اگلے ہی روز 16 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل خالی کروا لیے گئے۔ ہاسٹل میں رہنے والوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا خصوصی بندوبست کیا گیا۔

اسی صبح 20 اور 21 سالہ عائشہ اور طوبیٰ اہنے گھروں سے یونیورسٹی پہنچیں اور مولانا آزاد لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں۔

ان کے پاس پچھلے احتجاج کے پلے کارڈ موجود تھے اور دونوں نے کئی گھنٹے احتجاج جاری رکھا۔ جب انھیں روکا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہی ہیں۔

علی گڑھ میں اس وقت دفعہ 144 نافذ تھی جس کے مطابق ایک جگہ پر 4 لوگ اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے لیکن یہ تو صرف دو تھیں۔

طوبیٰ بتاتی ہیں کہ ’ہم نہیں چاہتے تھے کہ کوئی یہ سمجھے کہ ہم جدوجہد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور ہم پر امن نہیں ہیں۔ جب تک ایک بھی طالب علم احتجاج کر رہا ہے احتجاج زندہ رہے گا۔‘
ان میں سے زیادہ تر نوجوان لڑکیاں ہیں جو پرجوش ہیں اور پر امن بھی۔ وہ کہتی ہیں کہ صرف عورتیں ہی احتجاج کر سکتی ہیں کیونکہ حکومت کو نہیں معلوم کہ مسلم عورتوں سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔

یہ وہی عورتیں ہیں جن کی اب تک پہچان بے زبان عورت کی تھی اور جنھیں طویل عرصے سے سماج کا متاثرہ طبقہ کہا جاتا رہا ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ سنہ 2012 میں نربھیا کیس کے دوران پہلی بار خواتین نے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔

سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن شبنم ہاشمی کے مطابق مسلم خواتین کے احتجاج کا آغاز سنہ 2002 کے گودھرا فسادات کے دوران ہوا جب بہت ساری خواتین احتجاج کے لیے گھروں سے باہر آئیں اور ان میں سے کچھ ابھی تک جدوجہد کر رہی ہیں۔

برقعہ اور حجاب میں وہ اپنی شناخت کو نئی شکل دے رہی ہیں انھیں اب مسلمان کہلانے میں نہ تو ڈر لگتا ہے اور نہ ہی شرم آتی ہے۔

ان میں سے بیشتر یہ بھی کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی مرضی سے حجاب پہنا ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تصویروں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حجاب پہننے والی خواتین پولیس کو للکار رہی ہیں۔ وہ بھی جب دہلی میں شدید سردی ہو رہی ہے اور پولیس مظالم کی خبریں آ رہی ہیں لیکن یہ خواتین دن رات پلے کارڈز کے ساتھ مسلسل احتجاج کر رہی ہیں۔

شبنم ہاشمی کا کہنا ہے ’ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ آزادی کے بعد جمہوریت کے نام پر احتجاج کرنے اتنی زیادہ مسلم خواتین کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

یہ کسی دریا کے پشتے توڑنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک طرح سے 25 نسلوں کی جدوجہد کا جشن ہے۔ اب یہ خواتین سوشل میڈیا کی طاقت کو جانتی ہیں اور یہ پدر شاہی معاشرے کے خلاف بھی ایک قسم کی مزاحمت ہے۔‘

22 دسمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے دارالحکومت میں ایک ریلی نکالی جس میں خواتین کی عدم موجودگی کو محسوس کیا گیا۔ لیکن دوسری طرف خواتین کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر موجود تھی جو شہریت کے ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہی تھیں۔

ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم انڈیپینڈنٹ ویمن انیشیٹو نے جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے عینی شاہدین کے شواہد پر ایک رپورٹ تیار کی ہے۔

اس رپورٹ کو ’ان ایفرڈ- دی ڈے ینگ ویمن ٹک دی بیٹل ٹو سٹریٹ‘ یعنی ’وہ دن جب بے خوف نوجوان لڑکیاں لڑائی کو سڑکوں تک لے آئیں‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق وہیں ایسی خواتین موجود ہیں جنھیں اپنی سماجی اور سیاسی طاقت پر یقین ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ’15 دسمبر سنہ 2019 کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کے خلاف ہر طرح کی بہیمانہ کارروائی کی گئی۔ شہریت کے ترمیمی قانون- 2019 اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی مخالفت کرنے والے طلبہ کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اب انھیں پورے ہندوستان میں لاکھوں خواتین، مردوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل ہے۔

’اس جدوجہد میں انڈیا کی نوجوان خواتین جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے حق و انصاف اور مساوات کی بلند آواز کے ساتھ شامل ہیں۔ ان کی تصاویر ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی عمریں 19 سے 31 سال کے درمیان ہیں لیکن ان میں کچھ عام خاندانوں کی گھریلو خواتین بھی ہیں جو ان مظاہروں سے متاثر ہو کر گھروں سے باہر آئی ہیں۔’

نامعلوم مستقبل کا خوف
آفرین فاطمہ معروف یونیورسٹی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کونسلر ہیں۔ سنہ 2018-19 میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ویمن کالج کی صدر رہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ معاشرے کی بیداری میں تین طلاق اور بابری مسجد کے فیصلے بھی اہم ہیں۔ فون پر ان کی آواز تھکی ہوئی اور وہ خوفزدہ بھی لگتی ہیں۔

انھیں اس دوران ذہنی اور جذباتی طور پر بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے جبکہ تین بار ان پر اضطرابی کیفیت بھی طاری ہو گئی تھی۔

جس رات جامعہ میں پرتشدد واقعات ہوئے وہ اس رات جامعہ کے کیمپس میں پھنس گئیں تھیں۔ انھیں سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جارہا ہے۔ ان کے لیے خطرہ کئی گنا بڑھ گیا لیکن وہ خوفزدہ ہونے والی لڑکی نہیں ہیں۔

فاطمہ کا کہنا ہے کہ ’یوگی آدتیہ ناتھ جب اترپردیش میں جیت گئے تو مجھے براہ راست خطرہ محسوس ہوا۔ کیونکہ وہ مسلسل نفرت انگیز تقاریر کرتے رہے ہیں۔ مسلم خواتین گھر چھوڑ رہی ہیں کیونکہ اب بات ضبط سے باہر جا چکی ہے۔ خوف کے باوجود ہم جدوجہد نہ کرنے اور گھر چھوڑنے کا انتخاب نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم انھیں ایسا سوچنے نہیں دیں گے کہ ہم ان سے خوفزدہ ہیں۔‘

21 سالہ فاطمہ کے سامنے نامعلوم مستقبل کا خوف ہے۔ تاہم سی اے اے اور این آر سی نے معاشرے کی خواتین کو قومی دھارے میں لا کھڑا کیا ہے۔

فاطمہ کا کہنا ہے کہ ’حکومت یہ تو جانتی ہے کہ انھیں مسلمان مردوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے لیکن انھوں نے کبھی بھی مسلم خواتین کے چیلنج کا سامنا نہیں کیا لہذا ان کے پاس ہمارے ساتھ نمٹنے کا تجربہ نہیں ہے۔ انھوں نے کبھی بھی ہم سے احتجاج کی توقع نہیں کی ہوگی۔`

فاطمہ کا تعلق الہ آباد سے ہے جہاں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پولیس کی بربریت جاری ہے۔ ان کی والدہ نے سکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی لیکن انھوں نے اپنی تین بیٹیوں کو پڑھایا لکھایا۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے والی اپنے خاندان کی پہلی نسل ہیں۔

فاطمہ کہتی ہیں ’ہماری والدہ اور دادی تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ لیکن ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جنگی صورتحال ہے اور ہم ایک طویل عرصے تک خاموش رہے ہیں۔‘

فاطمہ سے ان کے اہل خانہ نے کبھی حجاب پہننے کے لیے نہیں کہا اور فاطمہ نے سنہ 2019 تک حجاب پہنا بھی نہیں۔ انھوں نے پہلی بار اس وقت حجاب پہنا جب تبریز انصاری کی موب لانچنگ کی خبریں سرخیوں میں آئیں۔

فاطمہ کا کہنا ہے کہ ’یہ فرسودہ سوچ ہے کہ مسلمان خواتین گھر میں کھانے کی میز پر سوچتی نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں جگہ ملتی ہے۔ میں مسلمانوں میں خواتین کی نمائندگی کی مثال بننا چاہتی ہوں۔‘

’شہریت کا مسئلہ خواتین کے لیے زیادہ اہم ہے‘

محمد سجاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے ہیں۔ سجاد کے مطابق جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلم خواتین شہریت کے ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف تحریک کی قیادت کررہی ہیں۔ ان تحریکوں کے پیچھے کسی بھی غیر مذہبی، سیکولر، بائیں بازو اور آزاد خیال تنظیموں کا کوئی کردار نہیں ہے۔

سجاد کہتے ہیں ’مسلم خواتین شہریت کے معاملے پر جدوجہد کر رہی ہیں اور اس لحاظ سے وہ اقلیت نہیں ہیں۔ وہ اپنی شناخت لے کر سامنے آرہی ہیں۔ وہ پر اعتماد، صاف اور واضح الفاظ میں اپنی بات کہہ رہی ہیں۔‘

جدید تعلیم سوشل میڈیا اور بیداری نے مل کر مسلم خواتین میں سیاسی طور پر باشعور طبقے کو جنم دیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 30 فیصد سے زیادہ مسلم خواتین ہیں جو پوسٹ گریجویٹ کورسز میں بڑھ کر 50 فیصد سے زیادہ ہوجاتی ہیں۔

بہرحال شہریت کا معاملہ خواتین سے زیادہ وابستہ ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ شادی کے بعد انھیں اپنی کنیت بدلنا ہوگا یا اگر شوہر باہر سے آیا ہے تو دستاویز ان کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج میں خواتین کا عنصر اہم ہے۔

سجاد کہتے ہیں ’خواتین حکومت کی اخلاقی طاقت کو چیلنج کررہی ہیں۔ یہ بھی پولیس کی بربریت پر قابو پانے کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔‘

نوٹس آئے لیکن خوفزدہ نہیں ہو‏ئی
عائشہ اور توبہ خوش مزاج اور موج مستی کرنے والی لڑکیاں ہیں لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ان دو بہنوں کی شناخت اب انقلابی لڑکیوں کی ہوگئی ہے۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔

بدھ کی صبح طوبی کا ٹیکسٹ میسج آیا ’نیا سال مبارک ہو، احتجاج ابھی جاری ہے، ہم باب سرسید پر واپس آئے ہیں اور ہم یہاں اس وقت تک رہیں گے جب تک۔۔۔‘

ان کے گھر دو مزید نوٹس بھیجے گئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ وہ دھرنے پر بیٹھ کر ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کررہی ہیں لیکن وہ ان نوٹسوں سے خوفزدہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے احتجاج کے ارادے میں کوئی کمی آئی ہے۔

یہ چیلنج اور نافرمانی ہے۔ ٹھٹھرنے والی ٹھنڈک کے باوجود، آنسو گیس کے باوجود، گرفتاریوں کے باوجود، پدرشاہی سماج کے باوجود۔ جیسا کہ ایک تختی میں لکھا ہے:

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

(راحت اندوری شاعر)

via bbc