چین نے دنیا کا سب سے بڑا ’روبوٹ بیل‘ تیار کرلیا

بیجنگ: چینی انجینئروں نے دنیا کا سب سے بڑا چوپایہ روبوٹ تیار کرلیا ہے جسے انہوں نے ’مکینیکل یاک‘ (روبوٹ بیل) کا نام دیا ہے۔

چین سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ اور چینی سرکاری ٹی وی کے مطابق، یہ روبوٹ فوجی مقاصد کےلیے تیار کیا گیا ہے جو ایسے دشوار گزار اور خطرناک علاقوں میں دشمن کی نگرانی کرسکے گا جہاں پہنچنا اور پہرہ دینا فوجیوں کےلیے جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔

خبروں میں اس روبوٹ کے وزن سے متعلق تو نہیں بتایا گیا لیکن اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ اس کی اونچائی ایک عام انسان کے مقابلے میں نصف ہے جبکہ لمبائی تقریباً انسان جتنی ہے۔

یہ چار پیروں پر آگے اور پیچھے چلنے کے علاوہ دائیں بائیں بھی گھوم سکتا ہے اور اپنا رُخ بدل سکتا ہے۔

یہ خود پر 160 کلوگرام وزنی سامان لاد کر 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے؛ یعنی اس کا ایک مقصد دشوار گزار علاقوں میں فوجی سامانِ رسد پہنچانا بھی ہوگا۔

’مکینیکل یاک‘ کے بارے میں چینی میڈیا کی جانب سے ٹوئٹر پر بھی ایک مختصر ویڈیو رکھی گئی ہے:

اس ویڈیو میں یہ امریکی کمپنی ’بوسٹن ڈائنامکس‘ کے تیار کردہ روبوٹ کتے ’بِگ ڈاگ‘ جیسا دکھائی دے رہا ہے تاہم چین نے وضاحت کی ہے کہ ’مکینیکل یاک‘ مقامی مہارت استعمال کرتے ہوئے ’آزادانہ طور پر‘ بنایا گیا ہے۔

یہ مصنوعی ذہانت والے سافٹ ویئر کے علاوہ کئی طرح کے حساسیوں (سینسرز) سے بھی لیس ہے جبکہ بدلتے ماحول اور حالات میں لڑکھڑائے بغیر چلتے رہنے کےلیے اس میں جوڑوں کے 12 ماڈیول بھی نصب ہیں جو اس کی حرکت کو ہموار رکھتے ہیں۔

اپنی انہی صلاحیتوں کی بدولت یہ روبوٹ ناہموار چٹانوں، سیڑھیوں، کیچڑ سے بھرے راستوں، ریگستانوں اور برف سے لدے میدانوں تک میں آسانی سے دوڑ سکتا ہے جبکہ فوجیوں کےلیے غذا اور اسلحہ لے جانے کے علاوہ، انسانوں کےلیے ناقابلِ برداشت ماحول میں نگرانی جیسے کام بھی کرسکتا ہے۔

چینی سرکاری ٹی وی کے مطابق، چین میں اسی طرح کا ایک اور منصوبہ ’گیڈا‘ (Geda) کے نام سے جاری ہے جس میں کتوں جیسے چوپایہ روبوٹ بنائے گئے ہیں۔ ایسا ہر روبوٹ صرف 32 کلوگرام وزنی ہے لیکن 40 کلوگرام تک سامان کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔

’گیڈا‘ روبوٹس کو اس قابل بھی بنایا گیا ہے کہ صوتی احکامات سمجھ کر، ان پر خودکار انداز میں عمل بھی کرسکیں۔

اندازہ ہے کہ ’مکینیکل یاک‘ میں بھی یہی ٹیکنالوجی مزید بہتر کرکے استعمال کی گئی ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ چین 2025 تک روبوٹکس کے میدان میں ساری دنیا بالخصوص امریکا پر سبقت حاصل کرنا چاہتا ہے؛ اور اس طرح کے منصوبے انہی کوششوں کا تسلسل ہیں۔