آزاد کشمیرکے لیے 5 گھرب روپے کا پیکیج۔ صحت و تعلیم پر توجہ کم ہے؟

وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی نے کابینہ کو پہلے اجلاس میں وفاق کی جانب سے آزاد کشمیر کے لئے 5 گھرب یعنی 5 سو ارب روپے کے خصوصی ترقیاتی پیکیج کی نوید سنائی، جو آزاد کشمیر جیسے چھوٹے علاقے کے لیے بہت خوش آئند خبر تھی۔ لیکن عوامی سطح پر اس اعلان کو سنجیدہ نہیں لیا گیا نہ پذیرائی ہوئی۔ غالب رائے یہی ہے کہ عمران خان اپنے اقوال میں یو ٹرن کو برا نہیں سمجھتے۔جب کہ وزیراعظم پاکستان نے ایسے کسی ترقیاتی پیکیج کا باضابطہ اعلان بھی نہیں کیا۔ پی ٹی آئی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ آزاد کشمیر کی ترقی کے لیے جلد ہی کسی پروگرام میں عمران خان اس کثیر مالی پیکیج کا اعلان کرنے والے ہیں۔”چھٹ منگنی پٹ بیاہ” کے مصداق اعلان ہوتے ہی دھڑا دھڑ کام شروع ہو گا اور آزاد کشمیر شائرہ ترقی پر گامزن ہو جائے گا۔ پانچ ماہ کی کارکردگی دیکھی جائے تو پی ٹی آئی کا جہاز ابھی رن وئے تک بھی نہیں پہنچا۔ سردار عبدالقیوم خان نیازی صدر ریاست، سینئیر وزیراور وفاقی نمائندوں کے درمیان سینڈویچ بنے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی جن ملاقاتوں کو ترقیاتی پیکیج کے منصوبوں کو حتمی شکل دینے کی آخری کوشش قرار دیتی ہے، آزاد ذرائع کہتے ہیں کہ وہ روٹھے سجن کو منانے کی کوششیں ہیں جو کبھی کامیاب ہوتی ہیں کبھی مایوس۔ سواریاں پوری نہ ہونے پر پی ٹی آئی کا جہاز اوڑان نہیں بھر رہآ۔ تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے منشوری وعدے سے انحراف، سرکاری محکموں میں کئی برسوں سے تعینات 4 ہزار سے زائد اہلکاروں کو آرڈیننس کے ذریعے فارغ اور راجہ فاروق حیدر کی حکومت میں شامل لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے احتساب ایکٹ میں ترمیم سمیت آزاد کشمیر ایکٹ کی تیرویں آئینی ترمیم کو ختم کر کے انتظامی اور مالی اختیارات اسلام آباد کو واپس کرنے کی منصوبہ بندی پر ہی حکومت کا سارا وقت گزر رہا ہے۔ نمائشی طور پر شروع کی گئی صفائی مہم کا شور تھما نہیں تھا کہ کچرے کے ڈھیر لگنے شروع ہو گئے، جہاں سے ہنگامی بنیادوں پر اٹھائے گئے تھے۔ مبینہ ہزاروں ٹن کچرا اٹھا کر شہر صاف کرنے کے اعلانات تو ہوئے، لیکن آج دیکھنے والا یہ یقین نہیں کر سکتا کہ کبھی ان شہروں میں صفائی ہوئی ہو۔ اسی کالم میں آج کی صورت حال کی نشان دہی کر دی گئی تھی کہ بلدیاتی انتخابات کے بغیر نہ شہر صاف رہ سکیں گے نہ بنیادی مسائل حل ہوں گے۔وہ سب جگہیں کچرے کے ڈھیروں سے بھر چکی جہاں سے اٹھانے کا اعلان ہوا تھا۔ وزیر، مشیر اور سیاسی اہلکار تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت پانچ سو ارب کے استعمال کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے اس لیے ابھی زمین پر کارکردگی نظر نہیں آ رہی۔ بے شک پی ٹی آئی کی حکومت کو ابھی ساڑھے چار سال باقی ہیں۔ اگر واقعی ترقیاتی پیکیج کے منصوبوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے تو بہتراقدام ہے۔ 500 ارب روپے آزاد کشمیر کی ترقی کے لیے بھاری رقم ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو پی ٹی آئی کی یہ بڑی کامیابی اور خوش قسمتی ہو گی کہ ریاست میں ترقی کا بھر پور عمل شروع ہونے والا ہے۔ اس پیکیج میں شامل جن منصوبوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے ان کی تکمیل سے وادی نیلم اور لیپہ جو سب سے زیادہ خوبصورت ہونے کے باوجود پسماندہ ہیں، میں ترقی اور خوش حالی کا دور دوراں ہو گا۔ خوش خبری یہ ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے درمیان پہلی مرتبہ زمینی راستہ بحال ہونے والا ہے۔۔ مبینہ طور پر ذرائع نقل و حمل کو ترقی دینے کے لیے تین بڑے ٹنل کے منصوبوں کو اس پیکیج میں شامل کیا گیا ہے۔ شونٹر ٹنل وادی نیلم کو استور کے راستے گلگت بلتستان کو مظفر آباد سے منسلک کرے گا یہ لگ بھگ ساڑھے 12 کلو میٹر طویل ہے۔ کشمیر سے ملحقہ گلگت بلتستان کے علاقوں کے عوام کو اس منصوبے سے زیادہ فائدہ ہو گا جن کو اسلام آباد کا فاصلہ 5 گھنٹے کم ہو جائے گا۔ جب کہ وادی نیلم جو اس سے قبل بند ہونے کے باعث سیاحوں کے لیے ترجیحی نہیں تھی ترجیحات میں شامل ہو گی۔ بابو سر ٹاپ سے گلگت میں داخل ہونے والا سیاح مظفر آباد کے راستہ سے پہنجاب میں داخل ہو سکے گا۔جب کہ وادی نیلم میں سیاحوں کی تعداد میں کئی گناہ اضافے سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ تقریبا 4 کلومیٹر کے ایک اور ٹنل کی تعمیر بھی اس ترقیاتی پیکیج میں شامل ہے جس سے وادی لیپا کے عوام کو سہولت ہو گی جو سردیوں میں مظفرآباد سے کٹ جاتے تھے۔ تین کلو میڑ طویل لوہار گلی ٹنل جو اس پیکیج کا حصہ ہے کی تعمیر سے مظفرا?باد کا مانسہرہ موٹر وے کے ساتھ رابط ا?سان اور فاصلہ کم ہوجائے گا۔ ان ٹنل کے ساتھ سڑکیں بھی تعمیر ہوں
گی۔ کشمیر ہائی وے عشروں سے زیر التوا قومی منصوبہ ہے مبینہ طور پر 140 کلو میٹر طویل اس سڑک کو بھی پیکیج میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ سڑک مظفر آباد سے منگلہ ڈیم تک دریا جہلم کی سنگت کرے گی۔ میرپور، کوٹلی پلندری اور راولاکوٹ کے شہریوں کو مظفرآباد ہہنچنے میں آسانی اور کم وقت صرف ہو گا۔ یہ بھی خبر ہے کہ بڑے شہروں کے پانی سیوریج اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو بہتر بنانا بھی اس پیکیج میں شامل کیا گیا ہے۔ بجلی کے مسائل پر بھی توجہ دی جائے گی۔ تعلیم اور صحت پر توجہ کم لگ رہی ہے۔البتہ زلزلہ بحالی کے لیے ڈونرز کی جانب سے دئے گئے 50 ارب روپے جو سندھ میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے منتقل کئے گئے تھے اس پیکیج کے ذریعے واپس آ رہے ہیں جس سے 515 تعلیمی اداروں کی عمارات مکمل ہوں گی جو ابھی تک کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ خواتین کے تعلیمی اداروں کی ترقی کے لیے 33 ارب روپے خرچ کرنے کا پروگرام ہے۔ ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ پونچھ اور میرپور ڈویڑن کے کس قابل ذکر منصوبے کو پیکیج میں شامل کیا گیا ہے۔ پونچھ ڈویڑن میں راولاکوٹ سول اسپتال، پونچھ یونیورسٹی چھوٹا گلہ کیمپس، میڈیکل کالج اور انجیئرنگ کالج، ویمن یونیورسٹی باغ اپنی عمارتوں میں نہیں جب کہ راولاکوٹ سنگولہ باغ اور راولاکوٹ علی سوجل عباس پور روڑ سمیت شہر سے شہر کئی رابطہ سڑکیں خستہ حال ہیں وزیراعظم، سینئیر وزیر اور صدر ہوتے ہوئے ہونچھ اور میرپور کے اہم ترین منصوبے پیکیج میں شامل نہ ہوئے تو سمجھا جائے گا کہ یہ ترقیاتی پیکیج مظفر آباد سے نہیں اسلام آباد سے فائنل ہو رہا ہے۔