پاکستان اور آزاد کشمیر کی 240 سے زیادہ خواتین مقبوضہ کشمیر میں شناخت سے محروم پاکستان واپسی سے محرومی اور معاشی مشکلات کے باعث تین نے خودکشی کر لی ہے

جنیوا() اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ایک دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ  بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر  میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی 240 سے زیادہ خواتین شناخت سے محروم ہیں۔ سفری اور شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان واپسی سے محروم ہیں، معاشی مشکلات کے باعث ان میں سے تین نے خودکشی کر لی ہے ۔ دستاویزA/HRC/48/NGO کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزاد کشمیر کی 200 اور پاکستان کی 40 خواتین اپنے 300 بچوں کے ساتھ پھنسی ہوئی ہیں کیونکہ مودی حکومت انہیں واپس جانے کی اجازت دینے سے انکار کر رہی ہے۔ پھنسی ہوئی ان خواتین میں سے اب تک تین نے خودکشی کی ہے، پانچ طلاق یافتہ ہیں جبکہ 15 بیوہ ہو چکی ہیں ۔ مودی حکومت ان خواتین کو شناختی اور سفری دستاویزات فراہم نہیں کر رہی ہے۔آزاد جموں وکشمیر اور پاکستان کی رہائشی ان خواتین نے ان کشمیری نوجوانوں سے شادیاں کی تھیں جو  مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم سے تنگ آکر آزاد کشمیر ہجرت کر گئے تھے ۔ بعدازاں یہ نوجوان بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر   کے اس وقت کے وزیر اعلی عمر عبداللہ کی طرف سے اعلان کردہ بحالی پالیسی کے تحت آزاد جموں و کشمیر سے اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ واپس بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر چلے گئے تھے۔ بدقسمی سے بعد میں ان کی بحالی کے وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ انہیں اپنے مطالبات کی پاداش میں بھارتی پولیس کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور انسانی حقوق کے ہائی کمشنر ان خواتین اور انکے بچوں کی بحفاظت آزاد کشمیر اور پاکستان واپسی کے لیے  اقدامات کریں۔کے پی آئی  کے مطابق 2010 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عمر عبداللہ کی حکومت نے اس وقت کی بھارتی حکومت کے آشیرباد سے 1989 سے 2009 تک پاکستان چلے جانے والے کشمیری نوجوانوں کی واپسی کے لیے ایک بازآبادکاری پالیسی کا اعلان کیا۔واپسی کے خواہش مند نوجوانوں سے کہا گیا کہ وہ واہگہ اٹاری، اسلام آباد اوڑی، چکن دا باغ پونچھ اور اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ نئی دہلی میں سے کسی ایک راستے سے واپسی اختیار کرسکتے ہیں۔ ایک رپورٹ  میں بھارتی سرکاری اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ  پاکستان میں رہائش اختیار کر چکے 4587 کشمیری نوجوانوں میں سے اس پالیسی کے تحت 489 نوجوان 2010 میں کشمیر  واپس  واپس لوٹ آئے جنہوں نے واپسی کے لیے نیپال کا راستہ اختیار کیا۔ ان میں سے تقریبا 350 نوجوان اپنے پاکستانی بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے آئے۔ بعد ازاں 2016 میں بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے متذکرہ پالیسی پر روک لگا دی۔اپنے شوہروں اور بچوں کے ساتھ کشمیر آنے والی 350 پاکستانی خواتین کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہے اور وہ اپنی قسمت کو کوس رہی ہیں۔ جب سے آئی ہیں ایک بار بھی پاکستان میں اپنے میکے نہیں جا پائی ہیں۔ انہیں بھارتی شہریت ملی ہے نہ سفری دستاویزات۔ان میں سے بیشتر خواتین کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔ اکثر ذہنی دبا کا شکار ہیں۔ اب تک کم از کم 3 پاکستانی خواتین خودکشی کرچکی ہیں۔ جن دو کو طلاق دی جاچکی ہے وہ بھی یہیں پھنس کر رہ گئی ہیں۔  یہ خواتین  بھارتی  حکومت سے سفری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔