ذیابیطس میں ’انسولین مزاحمت‘ سے فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تحقیق

اسٹاک ہوم: سویڈن میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے ایک لاکھ سے زائد مریضوں پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جن مریضوں میں انسولین مزاحمت زیادہ تھی، انہیں فالج کا خطرہ بھی دوسرے مریضوں سے زیادہ تھا۔

واضح رہے کہ انسولین مزاحمت (انسولین ریزسٹنیس) میں ہمارے جسمانی خلیے انسولین استعمال کرکے خون میں موجود شکر (گلوکوز) جذب کرنے، توڑنے اور توانائی بنانے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں جس کی وجہ سے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

نتیجتاً ہمارا لبلبہ (پینکریاز) خون میں شکر کی زائد مقدار معمول پر لانے کےلیے زیادہ انسولین خارج کرتا ہے جس سے اس پر کام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور لبلبے کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

اس تحقیق کی تفصیلات گزشتہ دنوں ’’یورپین ایسوسی ایشن فار دی اسٹڈی آف ڈائبٹیز‘‘ کی سالانہ میٹنگ میں پیش کی گئیں جو اس سال آن لائن منعقد ہوئی تھی۔

کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ اسٹاک ہوم، گوتھنبرگ یونیورسٹی اور نیشنل ڈائبٹیز رجسٹری سویڈن کے ماہرین نے یہ مشترکہ تحقیق ڈاکٹر الگزینڈر زبالا کی نگرانی میں تقریباً سات سال میں مکمل کی۔

اس مطالعے میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے 104,697 مریضوں کی صحت کا جائزہ لیا گیا جن کی اوسط عمر اس مطالعے کے آغاز پر 63 سال تھی۔

ان میں سے 46,590 خواتین تھیں جبکہ 58,107 مرد تھے۔ ان تمام مریضوں میں ذیابیطس اور صحت کے حوالے سے مختلف ظاہری کیفیات و علامات کے استعمال سے انسولین مزاحمت معلوم کی گئی۔

مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ ذیابیطس کے جن مریضوں میں انسولین مزاحمت زیادہ تھی، ان پر اوسطاً ساڑھے پانچ سال میں کم از کم ایک بار فالج کا حملہ ضرور ہوا تھا۔

محتاط تجزیئے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن مریضوں میں انسولین مزاحمت سب سے کم تھی، ان میں (سب سے زیادہ انسولین مزاحمت والے مریضوں کے مقابلے میں) فالج کا خطرہ بھی 40 فیصد کم تھا۔

بتاتے چلیں کہ ذیابیطس کو دنیا کی سب سے ہلاکت خیز بیماریوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ذیابیطس کی وجہ سے 2019 میں تقریباً 15 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ خون میں شکر (گلوکوز) کی زیادتی 2012 میں 22 لاکھ اموات کی وجہ بنی۔

انسولین مزاحمت ان دونوں کیفیات پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے لہذا اس پر قابو پانا بھی بہت اہم ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسولین مزاحمت پر قابو پانے کےلیے وزن کم رکھنا، صحت بخش غذا استعمال کرنا، روزانہ تقریباً 30 منٹ کی جسمانی مشقت (بشمول تیزی سے چہل قدمی) اور ڈاکٹر کی تجویز کردہ دواؤں کا پابندی سے استعمال ضروری ہے۔