پاکستان کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی جلدی نہیں ہے، شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے نئے طالبان حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے اور جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو میں مدد کی جائے تو انہیں زیادہ حساس اور بین الاقوامی رائے و اصولوں کو کھلے دل سے قبول کرنا ہوگا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق شاہ محمود قریشی، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں، نے کہا کہ ممالک، طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر غور سے قبل یہ دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان میں حالات کس طرح تبدیل ہوتے ہیں۔

انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں نہیں سمجھتا کہ اس موقع پر کسی کو بھی تسلیم کرنے کی جلدی ہے اور طالبان کو اس پر نظر رکھنی چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر طالبان چاہتے ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے تو انہیں زیادہ حساس اور بین الاقوامی رائے کو زیادہ قبول کرنا ہوگا’۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام ہے اور یہ حاصل کرنے کے لیے ہم افغانیوں کو یہ تجویز دیں گے کہ انہیں شمولیتی حکومت قائم کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ان کے ابتدائی بیانات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ اس خیال کے مخالف نہیں ہیں، لہٰذا دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے’۔

شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی کہ افغان طالبان اپنے وعدے کو پورا کریں گے اور لڑکیوں و خواتین کو اسکول، کالجز اور جامعات جانے کی اجازت دی جائے گی۔

انہوں نے امریکا اور دیگر ممالک پر بھرپور زور دیا کہ وہ سابق افغان حکومت کی منجمد کردہ رقم جاری کریں کیونکہ یہ افغان عوام کا پیسہ ہے جو ان پر خرچ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ فوری ترجیح پڑوسی ملک کے گہرے ہوتے معاشی زوال کو روکنا ہے جس سے انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک طرف آپ اس بحران کو روکنے کے لیے فنڈز جاری کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ رقم، جو ان کی ہے، وہ استعمال نہیں کر سکتے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اثاثے منجمد کرنے سے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد نہیں ملے گی، میں عالمی طاقتوں پر زور دوں گا کہ وہ اس پالیسی پر نظرثانی کریں اور اثاثے بحال کریں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہ اقدام اعتماد سازی بھی کرے گا اور مثبت رویے کے لیے حوصلہ افزائی ہوگی’۔

واضح رہے کہ امریکا نے افغانستان کی مرکزی بینک کے ساڑھے 9 ارب ڈالر منجمد کر دیے تھے جبکہ بین الاقوامی قرض دہندگان نے بھی فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔