کشمیری صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے ،خبر کے ذرائع بتانے پر مجبور کیا جارہا ہے پولیس کو اختیار ہے کہ وہ کسی خبر کو ‘ملک دشمن’ خبر قرار دے کر کارروائی کرے۔ امریکی رپورٹ

سری نگر( ) مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے قانون آرٹیکل370 کے خاتمے پر5 اگست 2019 کے بعد جموں وکشمیر میں کئی ماہ تک مکمل انفارمیشن بلیک آٹ رہا تھا۔ تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات معطل رہی تھیں اور صحافیوں کے لیے کام کرنا زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔ امریکی نشریاتی ادارے   وی او اے کے مطابق کے مطابق   بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میںگزشتہ پچیس ماہ کے دوران صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں پولیس کے سامنے پیش ہو کر رپورٹس اور خبر کے عمل کے بارے میں وضاحتیں پیش کرنے۔ اپنی خبر کے ذرائع بتانے کے لیے ان پر دبا ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ کئی صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات بھی پیش آئے ہیں جب کہ کئی صحافیوں کو جرنلسٹس کوٹا کے تحت فراہم کی گئی رہائشی سہولت بھی بغیر وجہ واپس لینے کی بھی اطلاعات ہیں۔پولیس نے رواں سال اپریل میںعسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپوں اور امن و امان کی صورتِ حال پیدا ہونے پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر جائے وقوع کی کوریج پر پابندی بھی لگا دی تھی۔البتہ پولیس عہدیدار وجے کمار نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ تقریر اور اظہارِ رائے کی آزادی کو مناسب پابندیوں سے مشروط کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق آئینِ ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت کسی دوسرے شخص کی زندگی کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ ان کے بقول، انکانٹر کی جگہ مصروفِ عمل پولیس اہلکاروں اور دوسرے حفاظتی دستوں کے جائز کام میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔جون 2020 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے ایک نئی میڈیا پالیسی بنائی تھی۔ جس کے تحت اسے ‘جعلی’، ‘غیر اخلاقی’، مضمونِ خیال یا عبارت کی چوری یا ‘ملک دشمن’ خبروں کا فیصلہ کرنے کا مجاز بنایا گیا تھا۔ اور اسے ذرائع ابلاغ کے متعلقہ ادارے۔ صحافی اور مدیر کے خلاف تعزیزی کارروائی کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گیا تھا۔