بھارتی حکومت مسرت عالم کو بھارتی سالمیت اور سیکیورٹی کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے امریکی نشریاتی ادارہ پچاس سالہ مسرت عالم بٹ کو ان دنوں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل نمبر 3 میں رکھا گیا ہے مسرت عالم پرپاکستانی پرچم لہرانے کے الزام میں بغاوت کا مقدمہ بھی درج ہے ۔27 مقدمات درج ہیں

سری نگر() کل جماعتی حریت کانفرنس کے  نئے چیرمین مسرت عالم بٹ کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں 27 فوج داری مقدمات درج  ہیں جبکہ مجموعی طور پر 17 برس جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے زیندار محلے میں جولائی 1971 میں پیدا ہونے والے مسرت عالم پرپاکستانی پرچم لہرانے کے الزام میں بغاوت کا مقدمہ بھی درج ہے ۔  پچاس سالہ  بٹ کو ان دنوںدہلی کی تہاڑ جیل نمبر 3 میں رکھا گیا ہے۔خیال رہے کہ سرینگر کے پرانے تاریخی شہر کا گنجان آبادی والا زیندار محلہ پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا آبائی علاقہ ہے تاہم ان کے بیشتر قریبی رشتے دار گزشتہ چار دہائیوں کے دوران شہر کے مضافات میں قائم ہونے والی کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔کے پی آئی کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے مسرت عالم پر مختلف الزامات کے تحت 27 فوج داری مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ انہیں متعدد بار سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بھی نظر بند کیا جاتا رہا ہے  انہوں نے مجموعی طور پر 17 برس جیلوں میں گزارے ہیں۔مسرت عالم کو مارچ 2015 میں مفتی محمد سعید کی سربراہی میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی۔بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط حکومت کے قیام کے فوری بعد رہا گیا گیا تو پورے بھارت میں ایک بڑا سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔اس کی گونج بھارتی پارلیمان میں بھی سنائی دی تھی جس کے بعد انہیں پھر گرفتار کیا گیا اور عدالتوں کی طرف سے کئی مقدمات میں بری ہونے کے باوجود وہ جیل میں ہیں۔ بھارتی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ بھارت کی سالمیت اور سیکیورٹی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ منگل کو حریت کانفرنس کا چیئرمین مقرر ہونے سے پہلے مسرت عالم اتحاد کے اس دھڑے میں سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ ایک اور رپورٹ  کے مطابق 2008 اور 2010  میں  مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف عوامی تحریک کے دوران نمایاں رہا ، جب اس نے بہترین کیلنڈر جاری کیے۔ 2015 سے وہ جیل میں ہے جب اسے آخری بار سری نگر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ۔انہوں نے سنہ 1999 میں  حریت پسندی کا راستہ اختار کیا، جس کے بعد کئی بار جیل جانا پڑا۔ سنہ 2010 میں وادی میں ہو رہے احتجاج کی نمائندگی کی۔ اپنی تقاریر سے عوام میں مقبول ہوئے اور احتجاجی کیلنڈر اجرا کرنے کی وجہ سے ان کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم پانچ سال بعد سنہ 2015 میں چند دنوں کے لیے انہیں جیل سے رہائی دی گئی۔اپریل 17 سنہ 2015 کو ان کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، کیونکہ ان پر سرینگر شہر میں بھارت مخالف نعرے بازی کرنے اور پاکستانی پرچم لہرانے کے الزامات عائد کیے گئے۔ ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا تھا جس کے دوسرے دن مرحوم گیلانی نے وادی میں ہڑتال کی کال دی تھی۔بعد ازاں یکم ستمبر کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔ تاہم پولیس نے ان کو اسی وقت دوبارہ گرفتار کرلیا اور انہیں جموں کی کٹھوعہ جیل منتقل کیا گیا جہاں بعد میں انہیں دہلی کی تہاڑ جیل نمبر 3 میں رکھا گیا ہے۔