کابل میں طالبان مخالف ریلیوں کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ

طالبان نے کابل میں مختلف ریلیوں کے لیے جمع ہونے والے سیکڑوں لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان کے نئے حکمران طالبان نے ابھی تک حکومت نہیں بنائی ہے لیکن دارالحکومت میں بہت سے لوگ 1996 اور 2001 کے درمیان طالبان کے سابقہ ​​ظالمانہ اور جابرانہ دور کے دوبارہ سے بحال ہونے سے خوفزدہ ہیں۔

طالبان کے خلاف مزاحمت کے طور پر منگل کو کابل بھر میں کم از کم تین ریلیاں نکالی گئیں جو طالبان کے اقتدار کے آخری دور میں ناقابل تصور تھیں کیونکہ اس وقت لوگوں کو سرعام پھانسی دی جاتی تھی اور چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے۔

احتجاج میں شریک سارہ فاطمہ نامی خاتون نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان خواتین چاہتی ہیں کہ ان کا ملک آزاد ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک دوبارہ تعمیر کیا جائے، ہم تھک چکے ہیں۔

یہ مظاہرہ پاکستانی سفارت خانے کے باہر منعقد ہوا جس میں خواتین سمیت 70 سے زائد افراد نے شرکت کی۔

25سالہ فاطمہ نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام لوگ معمول کی زندگی گزاریں، ہم آخر کب تک اس حالت میں رہیں گے؟

طالبان کے مسلح سپاہی پکاستانی سفارتخانے کے باہر احتجاج کے دوران نعرے بازی کرنے والوں کی طرف بڑھ رہے ہیں— فوٹو: اے پی
طالبان کے مسلح سپاہی پکاستانی سفارتخانے کے باہر احتجاج کے دوران نعرے بازی کرنے والوں کی طرف بڑھ رہے ہیں— فوٹو: اے پی

ہجوم نے بینرز اٹھا رکھے تھے اور ملک میں سلامتی سمیت دیگر تحفظات کے حوالے سے نعرے بازی بھی کررہے تھے۔

پاکستان ان تین ممالک میں سے تھا جنہوں نے طالبان کی سابقہ حکومت کو تسلیم کیا تھا اور 2001 میں امریکی حملے کے بعد پاکستان پر طالبان اور القاعدہ کی قیادت کو پناہ دینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

تاہم وزیر اعظم عمران خان نے 29 جولائی کو کہا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کی کارروائیوں کے لیے پاکستان کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور ہماری حکومت طالبان کی ترجمان نہیں ہے۔

ایک علیحدہ ریلی کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سو سے زائد افراد طالبان کے مسلح افراد کی کڑی نگرانی میں مارچ کررہے ہیں۔

مظاہرے میں شریک کابل کی ڈاکٹر زہرہ محمدی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان آزاد ہو، ہم آزادی چاہتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں چھوٹے شہروں میں بھی کچھ چھوٹے چھوٹے مطاہرے ہوئے جس میں ہرات اور مزار شریف میں ہونے والے مظاہروں میں خواتین نے نئی حکومت کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

دارالحکومت کابل میں طالبان کے سیکیورٹی انچارج جنرل مببن نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں طالبان کے محافظوں نے جائے وقوعہ پر بلایا اور بتایا کہ خواتین خلل پیدا کر رہی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مظاہرین صرف غیر ملکی انٹیلی جنس کی سازش کی بنیاد پر جمع ہوئے ہیں۔

مظاہرے کی کوریج کرنے والے ایک افغان صحافی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کی پریس آئی ڈی اور کیمرہ طالبان نے ضبط کر لیا ہے۔

کابل میں احتجاج کے دوران ایک خاتون اپنی گاڑی سے نعرے بازی کررہی ہیں— فوٹو: رائٹرز
کابل میں احتجاج کے دوران ایک خاتون اپنی گاڑی سے نعرے بازی کررہی ہیں— فوٹو: رائٹرز

دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ طالبان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ افغانوں کو آزادانہ طور پر افغانستان سے نکلنے دیں گے۔

انہوں نے دوحہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے امریکا کو بتایا کہ وہ سفری دستاویزات کے حامل افراد کو آزادانہ طور پر جانے دیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کو ان رپورٹس پر شدید دباؤ کا سامنا ہے جن کے مطابق امریکی شہریوں سمیت کئی سو افراد کو ملک ایک ہفتے کے لیے شمالی افغانستان کے ہوائی اڈے سے باہر جانے سے روکا گیا ہے۔

منگل کو یہ مظاہرے ایک ایسے وقت میں کیے گئے جب طالبان نے ایک دن قبل ہی افغانستان پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے وادی پنج شیر میں اہم جنگ جیت لی ہے۔

گزشتہ ماہ تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے سابق افغان حکومت کی سکیورٹی فورسز کو شکست اور ملک سے 20سال بعد امریکی انخلا کے بعد طالبان نے پہاڑی علاقے کا دفاع کرنے والی مزاحمتی قوتوں سے لڑنے کا رخ کیا۔

پیر کو پورے ملک پر کنٹرول کے بعد طالبان کے ترجمان نے اپنے اقتدار کے خلاف کسی بھی مزاحمت کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کوئی بھی شورش برپا کرنے کی کوشش کرے گا اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔