ورلڈ کپ کے لیے اسکواڈ کا اعلان، یعنی ہم ناں ہی سمجھیں؟

نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے تاریخی دورۂ پاکستان بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر رواں سال کے سب سے بڑے ایونٹ ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے پاکستان نے اپنی 15 رکنی ٹیم کا اعلان کیا اور کچھ ہی دیر کے بعد ’اچانک‘ ہیڈ کوچ مصباح الحق اور باؤلنگ کوچ وقار یونس کے استعفے آگئے۔ یوں ایک ہنگامہ خیز دن اپنے اختتام کو پہنچا۔

اعلان کردہ ٹیم کیسی؟

اعلان کردہ ٹیم دیکھیں تو مجموعی طور پر اسکواڈ متوازن نظر آتا ہے۔ کپتان بابر اعظم کے علاوہ اس میں شاداب خان (نائب کپتان)، اعظم خان، آصف علی، حارث رؤف، حسن علی، خوشدل شاہ، شاہین آفریدی، صہیب مقصود، عماد وسیم، محمد حسنین، محمد حفیظ، محمد رضوان، محمد نواز اور محمد وسیم جونیئر شامل ہیں۔

کمزور کڑی کون؟

ہوسکتا ہے کمزور کڑیاں آپ کو ابھی سے نظر آگئی ہوں، اور چند کھلاڑیوں کی سلیکشن تو ہماری نظروں میں بھی کھٹک رہی ہے۔ مثلاً آصف علی۔ بنا کسی کارکردگی کے اور ان کا ’بیک اپ‘ بھی خوشدل شاہ کی صورت میں، لگتا ہے پاکستان کو ایک ‘فنشر’ کی کمی بہت بُری طرح محسوس ہوگی۔

ان دونوں کھلاڑیوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اپریل میں انہیں قومی ٹیم سے اسی ’خراب‘ فارم کی وجہ سے نکالا گیا تھا لیکن اب نجانے کس کارکردگی کی بنیاد پر واپس لایا گیا ہے؟

اگر آپ کو یقین نہیں آرہا تو خود دیکھ لیجیے: آصف علی اب تک 27 انٹرنیشنل اننگز میں صرف 344 رنز بنا پائے ہیں، وہ بھی محض 16 کے اوسط اور 123 کے اسٹرائیک ریٹ سے۔ ان کی حالیہ کارکردگی تو بہت ہی مایوس کُن ہے۔ آخری 13 اننگز میں سے 9 میں وہ دہرے ہندسے میں بھی نہیں پہنچ پائے۔ پھر خوشدل بھی اپنی 9 انٹرنیشنل اننگز میں صرف 130 رنز رکھتے ہیں، بہترین اننگز 36 رنز کے ساتھ۔

یہ ہیں وہ کھلاڑی جو پاکستان کرکٹ کے ایک دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں، یعنی لوئر آرڈر میں ‘فنشر’ کا مسئلہ۔ آصف علی اور خوشدل کے علاوہ ممکنہ تیسرے ‘فنشر’ اعظم خان ہیں، جن کی داستان بھی مختلف نہیں، وہ تمام تر ‘ہائپ’ کے باوجود ابھی تک خود کو منوا نہیں پائے۔

یعنی لے دے کر یہ ذمہ داری وہی عماد وسیم اور حسن علی پر ہی آئے گی، جو اپنے تجربے کی بنیاد پر کبھی چل جائیں تو الگ بات لیکن بنیادی طور پر اس کام کے لیے ٹیم میں منتخب نہیں کیے گئے اور اس میں ناکامی پر انہیں ذمہ دار بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

بیٹنگ کا بوجھ کن پر؟

بہرحال، ٹاپ آرڈر میں دیکھیں تو سب سے بڑا خلا شرجیل خان کی صورت میں نظر آ رہا ہے کہ جنہیں نہ صرف آئندہ دونوں سیریز بلکہ ورلڈ کپ سے بھی باہر کردیا گیا ہے۔ فخر زمان بھی 15 رکنی اسکواڈ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ان کا نام ‘ریزرو’ کھلاڑیوں میں ہے۔ یعنی اوپننگ کے شعبے میں ‘طوفانی کمبی نیشن’ بھی بھول جائیں۔

تو بیٹنگ آرڈر میں بچے کون؟ کپتان بابر اعظم، تجربہ کار محمد حفیظ، محمد رضوان اور صہیب مقصود۔ ان میں سے کوئی دو بھی کسی میچ میں ناکام ہوئے تو سمجھیں پاکستان کی شکست پر مہر ثبت ہوگئی۔

باؤلنگ میں آسرا کون؟

اب چونکہ ورلڈ کپ متحدہ عرب امارات میں کھیلا جائے گا، اس لیے پاکستان نے اسپن باؤلنگ پر خاص توجہ دی ہے اور نائب کپتان شاداب خان کے علاوہ عماد وسیم اور محمد نواز کو ٹیم کا حصہ بنایا ہے۔ اسپیشلسٹ اسپنر عثمان قادر ‘ریزرو’ کھلاڑیوں میں ہیں یعنی 15 رکنی اسکواڈ کا حصہ نہیں۔

فاسٹ باؤلنگ میں حسن علی کا ساتھ دینے کے لیے شاہین آفریدی، محمد حسنین، حارث رؤف اور نوجوان محمد وسیم موجود ہیں۔ یہاں ہمیں محمد عامر اور وہاب ریاض کا تجربہ نہیں ملے گا۔ اگر بیٹنگ میں تجربے کے لیے محمد حفیظ کو شامل کیا گیا تھا تو باؤلنگ میں ہمیں ان میں سے کسی ایک کی ضرورت بھی تھی، خیر، اب حسن علی اور شاہین آفریدی پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوگی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس اسکواڈ میں کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں ہے جسے ہم مضبوط کہہ سکیں، بیٹنگ سے لے کر باؤلنگ تک ہر شعبے کی اپنی کمزوریاں ہیں۔

پچھلے ورلڈ کپ سے اس ورلڈ کپ تک

ٹی20 ورلڈ کپ آخری مرتبہ 2016ء میں کھیلا گیا تھا اور اس کے بعد سے بہت سا پانی پُلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ پاکستان آخری ورلڈ کپ میں انتہائی ناقص کارکردگی دکھا کر باہر ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ورلڈ کپ کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئیں اور اس بار قیادت سرفراز احمد کو سونپ دی گئی، جنہوں نے ٹیم میں ایک نئی جان ڈال دی۔ اگلے 3 سال تک پاکستان ٹی20 کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا رہا۔ اس عرصے میں ‘گرین شرٹس’ نے 36 ٹی20 انٹرنیشنلز کھیلے اور 30 میں کامیابی حاصل کی۔

لیکن پھر مصباح الحق آگئے، خطرے کی گھنٹی بج اٹھی اور خدشات کے عین مطابق کچھ ہی دنوں میں سرفراز احمد کی چھٹی ہوگئی اور پاکستان کی ٹی20 فتوحات کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

گزشتہ 2 سالوں میں قومی ٹیم 34 میں سے صرف 16 میچ جیت پائی ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ سری لنکا کے خلاف سیریز تک میں شکست کھائی۔ کامیابی حاصل کی تو صرف بنگلہ دیش، زمبابوے، ‘پر کٹے’ جنوبی افریقہ اور حال ہی میں بارش زدہ سیریز میں ویسٹ انڈیز کے خلاف۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کپتان سرفراز ہوں یا بابر، پاکستان کی حکمتِ عملی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ پاکستان آج بھی جیت کے لیے اپنے باؤلرز پر بھروسہ کرتا ہے اور بنیادی طور پر جتوانا انہی کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ بیٹسمین ابتدا ہی سے رنز کا بہاؤ تیز رکھنے کے بجائے پہلے وکٹیں بچا کر اننگ کی رفتار کو آخری اوورز تک ٹالنے کے ’اصول‘ پر کاربند نظر آتے ہیں۔ سرفراز نے کسی حد تک اس حکمتِ عملی کو بدلا تھا اور جیسے ہی وہ گئے، یہ ایک مرتبہ پھر در آئی اور ساتھ ہی پاکستان کی کامیابیوں کا سلسلہ بھی تمام ہوگیا۔ پے در پے ناکامیوں کے بعد ٹیم میں دھڑا دھڑ تبدیلیاں کی گئیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!

پچھلے 2 سالوں میں کھیلے گئے 34 ٹی20 مقابلوں میں پاکستان نے 38 کھلاڑیوں کو آزمایا ہے۔ مصباح الحق کی بطور ہیڈ کوچ آمد کے بعد ابتدائی 7 میچوں میں ہی 25 مختلف کھلاڑیوں کو کھلایا گیا۔ کپتان تک بدل دیا گیا حالانکہ پاکستان اس وقت عالمی درجہ بندی میں نمبر ایک تھا۔ بہرحال، اس کے بعد خدشات کے عین مطابق زوال شروع ہوگیا اور ابھی تک رکنے میں نہیں آ رہا۔

ورلڈ کپ 2021ء میں امکانات

ہمیں تو گروپ مرحلے سے آگے کا امکان نظر نہیں آتا۔ ‘قنوطی’ ہونے کا شبہ ایک طرف رکھیں، ذرا تھوڑی دیر کے لیے پاکستان کا گروپ دیکھیں، جس میں سب سے اوپر بھارت کھڑا نظر آ رہا ہے۔ ایک ایسی ٹیم جسے دیکھ کر ویسے ہی پاکستان کے کھلاڑیوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ 24 اکتوبر کو ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستان کا پہلا مقابلہ ہی روایتی حریف سے ہے۔ پھر اسی گروپ میں نیوزی لینڈ ہے اور ‘خطرناک’ افغانستان بھی بلکہ کوالیفائنگ مرحلے سے ممکنہ طور پر آئرلینڈ اور بنگلہ دیش بھی اسی ‘گروپ آف ڈیتھ’ میں آئیں گے۔ یہاں سے صرف 2 ٹیمیں ہی اگلے مرحلے یعنی سیمی فائنل میں پہنچیں گی۔ اب خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ خطرہ کتنا زیادہ ہے اور موجودہ اسکواڈ میں اتنے بڑے خطرے کو مول لینے کا دم نظر نہیں آتا۔

ٹی20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے گروپ کی صورتحال
ٹی20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے گروپ کی صورتحال

لیکن، لیکن، یہ ٹیم پاکستان ہے جو کچھ بھی کر گزر سکتی ہے۔ درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر آنے کی وجہ سے بمشکل 2017ء کی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی کرنے والی یہ ٹیم چیمپیئن بھی بنتی ہے اور ورلڈ نمبر وَن ہونے کے باوجود ٹی20 ورلڈ کپ میں سب سے پہلے باہر بھی ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ٹیم سے بہتر سے بہترین کارکردگی کی توقع بھی رکھی جاسکتی ہے اور بد سے بدترین پرفارمنس کا خدشہ بھی ساتھ رکھیں۔ لیکن فی الحال تو کاغذ پر جو ٹیم نظر آرہی ہے اس سے کچھ خاص خوش فہمی نہیں ہے۔

اور ہاں! پاکستان میں کوچ کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتا ہے، اس کے مطابق اگلا کوچ غیر ملکی ہونا چاہیے نا؟ دیکھتے ہیں قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے؟