الیکٹرانک ووٹنگ مشین تنازع: سینیٹ پینل میں حکمراں اتحاد کی طاقت میں اضافہ کردیا گیا

اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپوزیشن کے شور مچانے کے بعد قائمہ کمیٹیوں کے اختیارات اور افادیت سے براہ راست جڑے اپنے دو ‘متنازع’ فیصلوں کو واپس لے لیا لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) متعارف کرانے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق میں ووٹ ڈالنے سے متعلق مجوزہ ترامیم کے لیے قائم کردہ پینل میں حکمران اتحاد کی طاقت میں اضافہ کرکے ایک اور متنازع اقدام کیا ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ صادق سنجرانی نے سینیٹ کمیٹیوں کو ان کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی سرکاری عہدیدار یا سول سوسائٹی کے نمائندوں کو طلب کرنے سے روکنے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور پیپلز پارٹی کے قانون ساز مصطفی نواز کھوکھر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں واپس بلایا ہے۔

اپوزیشن قانون ساز نے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ کی اپنی رضامندی سے بلوچستان عوامی پارٹی کی ثمینہ ممتاز زہری کو پینل میں شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ایسا اقدام ہے کہ جب بل پر ووٹ ڈالنے کی بات ہوگی تو پینل کے ٹریژری اراکین کو اکثریت حاصل ہوگی، سینیٹ کمیٹی کی تشکیل کو ایک ایسے وقت میں تبدیل کیا گیا ہے جب پیر (آج) سے شروع ہونے والے مسلسل تین دن اس کا اجلاس ہونا ہے۔

کمیٹی کے پہلے دن (6 ستمبر) کے ایجنڈے میں پارلیمانی امور اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سیکریٹریوں کی جانب سے دو الیکشن ایکٹ ترمیمی بلز پر بریفنگ کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری اور نادرا کے چیئرمین کی جانب سے بالترتیب ای وی ایم اور آئی ووٹنگ پر بریفنگ شامل ہے۔

دوسرے دن کمیٹی کو فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے نمائندوں کے ساتھ سابق ای سی پی سیکریٹری کنور دلشاد اور اسمارٹ میٹ انٹرنیشنل ہولڈنگ، ایک نجی فرم کی جانب سے بریفنگ دی جائے گی۔

صادق سنجرانی کی سفارش پر نجی فرم کو شامل کیا گیا اور تیسرے دن 8 ستمبر کو کمیٹی بلوں پر بحث جاری رکھے گی۔ یہ اجلاس پہلے 12 جولائی کو ہونا تھا لیکن سینیٹ کے چیئرمین نے ایک غیر معمولی اقدام میں پینل کو متنازع الیکشن ایکٹ ترمیمی بلوں پر بریفنگ کو نامنظور کر دیا۔

پارلیمانی امور کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر تاج حیدر کو سینیٹ سیکریٹریٹ نے بتایا کہ چیئرمین سنجرانی کی ہدایت پر 26 جولائی کو جاری کردہ ایک ’سرکلر‘ کے مطابق کمیٹی کے سربراہوں کو حکومتی عہدیداروں کو طلب کرنے سے روک دیا گیا ہے، ان کی کمیٹی دوسری وزارتوں سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری اور نادرا کے چیئرمین کو نہیں بلا سکی۔

بعد میں تاج حیدر نے فافن کے نمائندوں کی جانب سے بریفنگ کے لیے کمیٹی کا غیر رسمی اجلاس بلایا لیکن اس میں صرف مصطفی نواز کھوکھر نے شرکت کی۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ متنازع سرکلر سے متعلق معاملہ سینیٹ کے چیئرمین کے ساتھ اپوزیشن نے سختی سے اٹھایا تھا جو ان فیصلوں پر نظرثانی کرنے پر راضی ہوئے جنہوں نے سینیٹ کمیٹی کو عملی طور پر ناکارہ بنا دیا تھا۔

تاہم ایک نئے سرکلر کے اجرا کے ساتھ حالات بہتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جس میں لکھا ہے کہ ’معزز چیئرمین سینیٹ نے کمیٹی ونگ کو ہدایت کی ہے کہ وہ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور سے متعلق کمیٹی کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے، کسی بھی شخص/موضوع کے ماہر کو مذکورہ بلوں پر میٹنگ میں مدعو کرسکتے ہیں‘۔

دریں اثنا پی پی پی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کمیٹی کی تشکیل میں یکطرفہ تبدیلی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ای وی ایم متعارف کرانے کی متنازع قانون سازی کی تجویز پر ووٹنگ کے موقع پر حکومت کے حق میں توازن کو جھکاؤ پیدا کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی ایک نئے بیک ڈور کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی پر مبنی ایک شرمناک کوششوں کی اجازت نہیں دے گی اور ہر فورم پر اس کی مزاحمت کرے گی۔