برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کو پاکستان کے ‘ریڈ لسٹ’ سے اخراج کی امید

لندن: برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر معظم احمد خان نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ برطانوی حکومت 26 اگست کو سفری پابندی کی اپ ڈیٹ میں پاکستان کو ریڈ لسٹ سے خارج کردے گی۔

صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے سفارتخانے کے پاکستان کو سفری پابندی کی فہرست میں برقرار رکھنے کے معاملے پر برطانوی حکام کے ساتھ ہونے والے روابط سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہاں حکام کو تمام پہلوؤں کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ڈیٹا کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے کووِڈ 19 کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان روابط کے فقدان کی رپورٹس کو بھی مسترد کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں (برطانوی حکام) نے پاکستان تک رسائی کے لیے جو سسٹم اپنایا وہ کووِڈ 19 کی درست صورتحال کی عکاسی نہیں کرتا اور اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہ تنقید نہیں ہے لیکن ہمارا نقطہ نظر بتانا اہم ہے، روابط کا کوئی فقدان نہیں ہے، ہم ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ درحقیقت مجھے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے بات کرنے اور پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھنے کے معاملے پر ان کی توجہ مبذول کرانے کا موقع ملا، جس سے پاکستان میں عوام اور تارکین وطن مایوس ہوئے ہیں جس پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے برطانوی حکام نے جن تحفظات کا اظہار کیا ان میں 2 اہم باتیں شامل ہیں، ایک کورونا وائرس کی نئی اقسام کی ناکافی جینوم نگرانی اور دوسرا کم تعداد میں ٹیسٹنگ، ڈیٹا کا فقدان ان کا بتایا گیا مسئلہ نہیں تھا۔

ہائی کمشنر نے کہا کہ ‘شاید یہ نسبتاً کم ٹیسٹنگ کا معاملہ ہے لیکن ہمارے یومیہ ٹیسٹ کا حجم باخبر فیصلے کرنے کے لیے کافی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ یومیہ کیسز کے ڈیٹا کے ساتھ ساتھ برطانوی حکام سے یومیہ اموات کی تعداد پر بھی نظر ڈالنے کی درخواست کی گئی ہے، جسے چھپایا نہیں جاسکتا اور آکسیجن اور وینٹی لیٹرز کی ضرورت بھی پوشیدہ نہیں رکھی جاسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ تاکہ برطانوی حکام کا فیصلہ ایک چیز پر منحصر نہ ہو بلکہ تمام پہلوؤں پر غور کر کے کیا جائے، ہم سمجھتے ہیں جب پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا تو تمام پہلوؤں کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔

معظم احمد خان نے کہا کہ برطانوی حکومت کا بنیادی مقصد متاثرہ مسافروں بالخصوص وائرس کی نئی اقسام کی آمد کو روکنا ہے اور میرے خیال میں پی سی آر ٹیسٹنگ اور اینٹیجن ٹیسٹ سے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ برطانیہ میں نئی اقسام کی آمد کے حوالے سے فکر مند ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری جینوم نگرانی ناکافی ہے، مزید کام کرنے کی بہت گنجائش ہوگی لیکن ہمارا ڈیٹا واضح تصویر پیش کرتا ہے اور ہمارا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں بیٹا ویرینٹ تشویش کا باعث نہیں بلکہ برطانوی اور ڈیلٹا قسم ہے۔