مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی بھاری نقل و حرکت سے شہریوں میں خوف وہراس فورسز کی بھاری تعداد میں نقل و حرکت کشمیر میں کسی نہ کسی بڑی تبدیلی واقع ہونے کی نوید 2 سوکمپنیوں میں سے بیشتر شمالی کشمیر اور جموں کے کچھ حصوں میں تعینات کیا جارہا ہے

سری نگر( ) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی بھاری تعداد کی نقل و حرکت نے  شہریوں میں خوف وہراس پیدا کر دیا ہے ۔لوگوں کا  کہناہے کہ  فورسز کی بھاری تعداد میں نقل و حرکت کشمیر میں کسی نہ کسی  بڑی تبدیلی واقع ہونے کی نوید ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی جب فورسز کی بھاری تعداد میں یہاں تعیناتی عمل میں  لائی گئی تو اس کا کوئی نہ کوئی بڑا مقصد تھا ۔ سال 2019 کے ماہ اگست میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت  کے خاتمے سے  قبل بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔بعض لوگوں کے مطابق  جموں و کشمیر یونین ٹریٹری میں صوبہ جموں کو ریاستی درجہ جبکہ کشمیر کو دو الگ الگ یونین ٹریٹریوں میں منقسم کرنا ہے۔ سی آر پی ایف اور دیگر نیم فوجی اہلکاروں کے 200 کمپنیاں جموں و کشمیر پہنچ گئی ہیں-اس صورتحال میں عوامی و سیاسی حلقوں میں  خوف ہے ان کمپنیوں میں سے بیشتر شمالی کشمیر اور جموں کے کچھ حصوں میں تعینات کی جا رہی ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پھیلائی جا رہی افواہیں غلط ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کمپنیاں ان ریاستوں سے واپس لائی جا رہی ہیں جہاں حال ہی میں اسمبلی انتخابات اختتام پذیر ہوئے۔جموں وکشمیر سے پیرا ملٹری فورسز کی قریب دو سو کمپنیوں کو ان بھارتی ریاستوں میں بھیج دیا گیا تھا جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے تھے۔’قابل ذکر ہے کہ سال 2019 میں بھارتی حکومت کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت  کی تنسیخ کے اعلان کے قبل وادی کشمیر میں پیرا ملٹری فورسز کی قریب 8 سو اضافی کمنیوں کو تعینات کیا  تھا۔ ان میں سے سال گذشتہ ایک سو کمپنیوں کو واپس بلایا گیا ہے۔ جموں و کشمیر میں گزشتہ چند روز سے عوام میں کشمیر کی تقسیم کے متعلق خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ ادھر  دو روز قبل جموں و کشمیر کے  گورنر ایل جی منوج سنہا اور پولیس سربراہ دلباغ سنگھ، چیف سیکریٹری ارون کمار مہتا اور سابق چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم اے ڈی جی پی سی آئی ڈی آر آر سوین نئی دہلی روانہ ہوئے-ان اعلی حکام نے وہاں وزیر داخلہ کے علاوہ ہوم سیکرٹری کے ساتھ ملاقاتیں کی۔ پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے میڈیا کو بتایا ہے کہ نیم فوجی دستوں مغربی بنگال سے واپس جموں و کشمیر لایا جارہا ہے۔