بھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں پانچ مساجد انتہا پسند مودی حکومت کے ریڈار پر آگئی ہیں بھارتی پارلیمنٹ کی ایک نئی عمارت کی تعمیر کے منصوبے میں پانچ مساجد کی شہادت کا خطرہ ان مساجد میں انڈیا گیٹ کے نزدیک واقعی ضابطہ گنج مسجد ، سنہری باغ مسجد بھی شامل ہے

نئی دہلی : بھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں پانچ مساجد انتہا  پسند مودی حکومت  کے ریڈار پر آگئی ہیں۔ بھارتی  حکومت نے20ہزار کروڑ   کی لاگت سے بھارتی پارلیمنٹ کی ایک نئی عمارت ، ایک مشترکہ مرکزی سیکریٹریٹ اور وزیر اعظم ہاوس سے انڈیا گیٹ تک تین کلومیٹر لمبے کھلے علاقے کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے۔  بھارتی  حکومت  کے اس منصوبے کی جگہ پر پانچ مسجدوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان مساجد میں انڈیا گیٹ کے نزدیک واقعی ضابطہ گنج مسجد ، ادھیوگ بھون کے قریب سنہری باغ روڈ کے چوراہے پر سنہری مسجد، کرشی بھون کے اندر موجود مسجد ،اسی طرح نائب صدر  کی رہائش گاہ کے اندر موجود مسجد اور اور ریڈ کراس ورڈ پر پارلیمنٹ مسجد کے انہدام کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ دہلی ہائی کورٹ نے  سینٹرل وسٹا پروجیکٹ  کوایک "ضروری قومی منصوبہ” قرار دیا ہے اور تعمیراتی کام روکنے  کی درخواست مسترد کر دی ہے۔عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے وزیراعظم مودی  اور  بھارتی وزیر ہردیپ پوری کو اس سلسلے میں خط لکھ کر وضاحت کرنے کے لیے کہا جس کے مطابق سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کی زد میں پانچ مسجدوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان مساجد میں سے بیشتر 100 سال سے زیادہ پرانی ہیں۔ امانت اللہ خان نے دس دنوں کے اندر وضاحت  طلب کی ہے  کہ  دہلی کے وی وی آئی پی علاقے لٹین زون میں سینٹرل وسٹا پروجیکٹ شروع کیے جانے کے کے بعد سے ہی اس علاقے میں آنے والی تاریخی مساجد کے تعلق سے مسلمانوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ یاد رہے  لٹین زون میں تین تاریخی مساجداور ایک درگاہ واقع ہے اور یہ تمام مقدس مقامات دہلی وقف بورڈ کے ماتحت آتے ہیں۔اہم پہلو یہ بھی ہے اب تک سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کے جو نقشے اور بلوپرنٹ سامنے آئے ہیں ان میں تمام عمارتیں دکھائیں گئی ہیں لیکن مساجد کو بلو پرنٹ میں نہیں دکھایا گیا ہے۔ضابطہ گنج مسجد کے سابق امام مولانا اسد خان فلاحی نے بتایا کہ ان کی مسجد 250 سال سے زیادہ پرانی ہے اور قومی وراثت کے تحت سو سال پرانی چیزیں آتی ہیں اورابھی تک ان کو کوئی بھی نوٹس نہیں ملا ہے ۔البتہ مسجد کے قرب و جوار میں میں بڑے پیمانے پر پروجیکٹ کے تحت کھدائی کی جا رہی ہے اور اس مسجد کو پروجیکٹ کے بلوپرنٹ میں دکھایا گیا ہے اس لئے میری رائے ہے کہ یہ مسجد محفوظ ہے۔ جب کہ سنہری مسجد کے امام نے بھی اس بات کی تصدیق کی کی انہیں اب تک کوئی نوٹس نہیں دیا گیا ہے۔ دہلی وقف بورڈ بہتر طور پر فیصلہ لے گا۔